مرجعيت اور ولايت و رہبري 4 آئڈم اگر ولى فقيہ ظالم کفار سے جنگ يا جہاد کا اعلان کرے اور ميرا مرجع تقليد مجھے جنگ ميں شريک ہونے کى اجازت نہ دے تو کيا ميں اپنے مرجع کى رائے پر عمل کرنے کا پابند ہوں يا نہيں؟ جيسا کہ آپ کو معلوم ہے علم اصول فقہ ميں "اجتہاد متجزي" کے عنوان سے ايک مسئلہ کے بارے ميں بحث کى جاتى ہے، کيا امام خمينى کا مرجعيت کو قيادت سے الگ کرنا اجتہاد متجزى کى جانب ايک قدم ہے؟ ولى فقيہ کا حکم يا فتويٰ کس حد تک قابل عمل ہے؟ اور اگر يہ حکم يا فتوى مرجع اعلم کى رائے کے خلاف ہو تو ان دونوں ميں سے کس پر عمل کيا جائے اور کس کو ترجيح دى جائے ؟ اگر سماجى، سياسى اور ثقافتى مسائل ميں ولى فقيہ اور دوسرے مرجع تقليد کے فتاويٰ مختلف ہوں تو ايسے کاموں ميں مسلمانوں کا شرعى فريضہ کيا ہے؟ اور کيا يہاں پر کوئى ايسا معيار ہے جو ولى فقيہ کى طرف سے جارى ہونے ...